Posts

خطبہ جمعہ کعبہ شریف

 خطيب مسجد الحرام مكة المكرمة کے خطبہ جمعہ سے إقتباس: Translation قیمتیں بہت بلند ہیں اور عورتیں بـے پردہ ہیں اور مسجدیں خالی ہیں اور اللہ تعالی کے احکامات کی بغاوت ہـو رہی ہـے چوروں کے پاس دلائل ہیں اور مجاہدں کو ہـتھکڑیا لگا کر پابند سلاسل کر دیا گیا ہـے اور زنا کو حلال قرار دے دیا گیا اور  نکاح کو مشکل بنا دیا گیا اور عورتیں مردوں پر حکمرانی کرتی ہیں اور مسلمانوں کی زمین دشمنوں کے قبضہ میں ہـے اور فقراء اور مساکین کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہـے ہیں اور قیامت کی بڑی بڑی تمام نشانیاں پوری ہـوچکی ہیں سوائے چند ایک کے پس توبہ کو لازم پکڑو  توبہ کو لازم پکڑو سوراخ والے بیگ سے ڈرو! نیکیوں کو برباد کرنے سے بچو’’ زندگی کم اور کام زیادہ ‘‘اور جس بیگ میں نیکیاں رکھنی ہیں اس میں سوراخ ہیں آپ وضو بہت اچھے طریقے سے کرتے ہیں؟ لیکن پانی بہت زیادہ ضائع کرتے ہیں (سوراخ والا بیگ ) آپ فقراء اور مساکین پر صدقہ وخیرات کرتے ہیں پھر ان کی تذلیل کرکے ان پر ہـنستے ہیں (سوراخ والا بیگ ) آپ راتوں کو قیام کرتے ہیں دن کا روزہ رکھتے ہیں اور اپنے رب کی اطاعت کرتے ہیں لیکن قطع رحمی بھی کرتے ہیں (سوراخ والا بیگ

داستاں سرائے

 محمد رفیع، مکیش چندر ماتھر، لتا منگیشکر، منا ڈے، مہندی حسن، سلامت علی خان، فتح علی خان، نصرت فتح علی خان، برکت علی خان، اور کئی ایسے نام جو سر دست یاد نہیں آ رہے ان ارواح میں ایک اور روح شامل ہوئی ہے جن کے لئیے میرے اندر ایک دعا ہمیشہ گنگاتی رہی کہ خدائے محبت مجھے مرنے کے بعد ان لوگوں کو سننے کا ایک بار موقعہ ضرور ملے اور اس دور میں جہاں نعت اور حمد پیشہ ور لوگوں کی وجہ سے بس شور بن کر رہ گئی ہے ایسے میں یہ وہ آوازیں تھیں جو اس لائق تھیں کہ وہ تیری حمد و ثنا بیان کریں۔ یہاں نہ سہی اس جہان میں سہی۔ دعا کا کیا ہے دعا مانگنے خواہش کرنے پہ کیسی روک لگانا اور کون لگائے۔۔  ایک سچی اور بے حد خوبصورت آواز نیرہ نور تتلیوں اور جگنوؤں کے دیس چلی گئیں۔ ایک اور روح کو سکون دینے والی آواز خاموش ہو گئی۔ وہ کافی عرصہ سے ٹی وی پہ نہیں آ رہی تھیں کسی وجہ سے گوشہ نشیں تھیں یا بیمار تھیں واللہ اعلم۔ ایک وجہ تو یہ بھی ہے کہ ہم لوگ کبھی بڑے فنکاروں کی قدر نہیں کر سکے. ہمارے دن رات زوال پذیر فنون لطیفہ میں موسیقی بھی شامل ہے۔ آپ پچھلے سال کی بات چھوڑیں امسال تمغہ امتیاز اور حسن کارکردگی جن کو دئیے گئے ہیں خ

مڈل کلاس لوگوں کا المیہ

  مڈل کلاس لوگوں کا المیہ ۔۔۔ گھڑی کی سوئیوں کی طرح نوالوں کے گرد گھومنے والے دو اور دو جمع آٹھ کا خواب دیکھتے دفتروں میں بچھے  کاغذوں میں دبے ہوئے اپنی بد رنگی پتلونوں کی سلائیاں چھپاتے خشک زبانوں سے باس کی کرسیاں صاف کرتے کھڑکھڑاتے نوٹوں کی مہک سے سانسوں کی رفوگری کرتے جھوٹ کی ریزگاری سے اپنے لئے جنتوں میں محل خریدتے  مسجدوں کے نام بچی کھچی روٹیوں کی طرح  آدھی پونی نمازیں لکھ کر حوروں کے تصور سے لرزتے،بہکتے فراز کی شاعری سے  راتوں کے کش لگاتے دن کے داغ دھوتے  پہلی تاریخوں سے کسی محبوبہ کی طرح عشق کرتے ہوئے مہینے کے آخری دنوں کو ایک ڈراؤنا خواب سمجھ کر  بھول جانے کی خواہش کرتے چائے کی پیالیوں میں کڑوےکسیلے وقت کی نمکینیاں گھولتے  فٹ پاتھوں پر رنگین آنچلوں کی سرخی سے نت نئی خبریں بناتے زندگی کے ٹھڈے،لاتیں ،کوسنے کھاتے بڑی گاڑیوں کی جھڑکیاں سنتے اپنی بیمار،کھانستی ،رینگتی ہوئی سواریوں کے آگے ہاتھ جوڑتے گڑگڑاتے بسوں،ویگنوں،رکشوں کے چنگھاڑنے ہارنوں میں ارینجڈ میرج کے باجے بجاتے ہوئے ریڑھیوں پر مکھیوں کی طرح بھبھناتے ایک ایک روپے کے لئے  سو سو گالیاں پھانکتے  موت کے گریباں میں جھانکتے 

امروز

  امروز امرتا کے لیے کہتے ہیں وہ ملی! تو گویا ایک امید ملی زندگی کی  یہ ملن چل پڑا۔ ۔ ۔ ہم اکثر ملنے لگے چپ چاپ کچھ کہتے ،کچھ سنتے چلتے چلتے ۔ ۔ ۔  کبھی کبھی ایک دوسرے کو دیکھ بھی لیتے ایک دن چلتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں میرے ہاتھ کی انگلیوں میں ملادیں اور میری طرف اس طرح دیکھاجیسے زندگی پہیلی بوجھنا چاہتی ہو کہ بتا تیری انگلیاں کون سی ہیں؟ میں نے اس کی طرف دیکھااور نظر سے ہی جواب دیا ساری انگلیاں تیری بھی ہیں ساری انگلیاں میری بھی۔ ۔ ۔ ایک تاریخی عمارت کے باغیچے میں چلتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ کرکچھ یوں دیکھاجیسے پوچھ رہی ہو اس طرح میرے ساتھ توکہاں تک چل سکتا ہے؟ میں نے کتنی ہی دیر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا جیسے ہتھیلیوں کے راستے زندگی سے کہہ رہا ہوں جہاں تک تم سوچ سکو۔ ۔ ۔ ۔ ~ امروز

نیرہ نور انتقال کر گئیں

 ‏ لیجنڈری گلوکارہ نیرہ نور انتقال کر گئیں ،  انا للہ و آنا الیہ راجعون ۔ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ۔  نیرہ نور پاکستان کی معروف گلوکارہ نیرہ نور3 نومبر 1950ء کو موجودہ ہندوستان کے مقام آسام میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندان تجارت کے پیشے سے وابستہ تھا جو امرتسر سے آسام کے شہر گوہاٹی میں آ بسا تھا۔ 1958ء میں ان کا خاندان پاکستان آگیا۔ نیرہ کا خاندان نہ تو فن موسیقی سے وابستہ تھا اور نہ ہی نیرہ نے موسیقی کے حوالے سے کوئی رسمی تعلیم حاصل کی۔ تاہم نیرہ کو دریافت کرنے کا سہرا پروفیسر اسرار کے سر ہے جنہوں نے1968ء میں نیرہ کو نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں ایک عشائیے کے بعد گاتے سناتھا ، اس کے بعد نیرہ نور نے پہلے ریڈیو پاکستان اور پھر پاکستان ٹیلی وژن کے لیے گیت گانے سے اپنے فن کا باقاعدہ آغاز کیا۔ نیرہ نور انتہائی سادہ، کم گو اور شرمیلی خاتون ہیں۔ انہوں نے آغاز سے اب تک اپنے مخصوص انداز اور معیار کو قائم رکھاہوا ہے۔ ان کا ظاہری رکھ رکھاؤ سادگی کی اعلیٰ مثال ہے۔ حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 2005ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ ‏ہمیں ماتھے پہ بوسا دو کہ ہم کو

ہمیں بھی سن لو

 اہلِ پاکستان! حکومتِ پاکستان! ریاستِ پاکستان! ہمیں سن لیجئیے کہ اب آوازیں آوازیں دے دے کر ہمارے گلے بیٹھنے کو ہیں۔ممکن ہے کل کو دامان و کوہ سلیمان تو رہ جاۓ مگر انکے نوحے کہنے والے تمام رخصت ہو چکے ہوں گے۔ہمیں سنیں کہ ہم انسانی المیے سے دوچار ہیں اور اس سے بڑھ کر المیہ ہے کہ ہمارے المیے کو المیہ ہی نہیں سمجھا جا رہا۔ ممبرِ رسول سے آتی اس صدا پر کان دھرئیے خُدارا۔ “ کل جلو والی ( دامان کا ایک گاؤں ) میں قیامتِ صغریٰ کا منظر تھا اور میں نے اپنی تمام عمر میں ایسی کیفیت کھبی نہیں دیکھی۔چھوٹے چھوٹے بچے اور خواتین صرف اس امید پر کہ شاید ہم اپنے گھر کو بچا سکیں ، اپنے گھروں کا سامان ڈھونے میں مصروف تھے۔میں بھی اپنے گھر کے سامان کو بچانے میں مصروف تھا کہ چند چھوٹے بچوں نے آ کر میرا دامن تھاما اور فریاد کی کہ وہ پچھلے چوبیس گھنٹوں سے مسلسل فاقہ میں ہیں اور ایک لقمہ روٹی کا انکے حلق سے نیچے نہیں اترا۔۔۔۔۔۔ (کاش کوئ ایسی سائن لینگوئج ہوتی کہ جہاں مولانا کی آنکھوں سے برستے آنسوؤں کا ترجمہ کیا جا سکتا اور کوئ ایسا در ہوتا جو ان آنسوؤں کی آواز پر کھل جاتا ) ایک ایسا قیامت خیر منظر تھا کہ مجھ سے رہا

بستی گمب سیلاب کی زد میں

  وسیب اور سیلاب تونسہ شریف میں سیلاب نے تباہی مچا دی ہے اور ابھی تک کوئی خاطر خواہ حکومت پاکستان کی جانب سے انتظامات نہیں کے گئے۔۔ لوگ بے یارو مدد گار کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے وہ اپنے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ اور ان کی تمام تر سہولیات کا خیال رکھے ۔لیکن ابھی تک کوئی بھی سہولت میسر نیں۔۔ تونسہ کی نواحی بستی گمب اور بیٹ فتح خان کی تمام آبادیاں زیر آب ہیں۔  اس وقت کے مطابق 95% حصہ  زیر آب ہے