امروز

 امروز امرتا کے لیے کہتے ہیں


وہ ملی!


تو گویا ایک امید ملی زندگی کی

 یہ ملن چل پڑا۔ ۔ ۔

ہم اکثر ملنے لگے

چپ چاپ کچھ کہتے ،کچھ سنتے

چلتے چلتے ۔ ۔ ۔

 کبھی کبھی

ایک دوسرے کو دیکھ بھی لیتے

ایک دن چلتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں میرے ہاتھ کی انگلیوں میں ملادیں

اور

میری طرف اس طرح دیکھاجیسے زندگی پہیلی بوجھنا چاہتی ہو

کہ بتا تیری انگلیاں کون سی ہیں؟

میں نے اس کی طرف دیکھااور نظر سے ہی جواب دیا

ساری انگلیاں تیری بھی ہیں

ساری انگلیاں میری بھی۔ ۔ ۔


ایک تاریخی عمارت کے باغیچے میں چلتے ہوئے

میرا ہاتھ پکڑ کرکچھ یوں دیکھاجیسے پوچھ رہی ہو


اس طرح میرے ساتھ توکہاں تک چل سکتا ہے؟

میں نے کتنی ہی دیر

اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا

جیسے ہتھیلیوں کے راستے

زندگی سے کہہ رہا ہوں

جہاں تک تم سوچ سکو۔ ۔ ۔ ۔


~ امروز

Comments

Popular posts from this blog

خطبہ جمعہ کعبہ شریف

نیرہ نور انتقال کر گئیں