ہمیں بھی سن لو

 اہلِ پاکستان!

حکومتِ پاکستان!

ریاستِ پاکستان!


ہمیں سن لیجئیے کہ اب آوازیں آوازیں دے دے کر ہمارے گلے بیٹھنے کو ہیں۔ممکن ہے کل کو دامان و کوہ سلیمان تو رہ جاۓ مگر انکے نوحے کہنے والے تمام رخصت ہو چکے ہوں گے۔ہمیں سنیں کہ ہم انسانی المیے سے دوچار ہیں اور اس سے بڑھ کر المیہ ہے کہ ہمارے المیے کو المیہ ہی نہیں سمجھا جا رہا۔

ممبرِ رسول سے آتی اس صدا پر کان دھرئیے خُدارا۔


“ کل جلو والی ( دامان کا ایک گاؤں ) میں قیامتِ صغریٰ کا منظر تھا اور میں نے اپنی تمام عمر میں ایسی کیفیت کھبی نہیں دیکھی۔چھوٹے چھوٹے بچے اور خواتین صرف اس امید پر کہ شاید ہم اپنے گھر کو بچا سکیں ، اپنے گھروں کا سامان ڈھونے میں مصروف تھے۔میں بھی اپنے گھر کے سامان کو بچانے میں مصروف تھا کہ چند چھوٹے بچوں نے آ کر میرا دامن تھاما اور فریاد کی کہ وہ پچھلے چوبیس گھنٹوں سے مسلسل فاقہ میں ہیں اور ایک لقمہ روٹی کا انکے حلق سے نیچے نہیں اترا۔۔۔۔۔۔

(کاش کوئ ایسی سائن لینگوئج ہوتی کہ جہاں مولانا کی آنکھوں سے برستے آنسوؤں کا ترجمہ کیا جا سکتا اور کوئ ایسا در ہوتا جو ان آنسوؤں کی آواز پر کھل جاتا )

ایک ایسا قیامت خیر منظر تھا کہ مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے اپنے گھر جا کر اپنی والدہ  سے دریافت کیا کہ گھر میں کتنی رقم موجود ہے؟

والدہ نے پچیس ہزار کا بتایا اور میں نے جا کر ان پیسوں سے چاول کی دیگوں کا انتظام کیا۔ان چاولوں کو پیک کرنے کے بعد جب میں وہ چاول تقسیم کرنے روانہ ہوا تو بچے بیچارے اپنی انا اور خودداری سے ہار کر چاول کھانے میں مگن ہو گۓ مگر وہ لوگ جو کل تک خود مخیر اور گھر بار والے تھے میرے ہاتھوں سے چاول لیتے ہوۓ رو دیے حالانکہ مجھے مکمل یقین تھا کہ یہ بھی پچھلے اڑتالیس گھنٹوں سے فاقے میں ہیں۔۔۔

چاہے گھونسلوں کا ایک تنکا تک نہ بچا!

ہم نے سب سے کہا کہ بچا ہو گیا! “


آپ آنسوؤں کو کو دیکھ اور سن سکتے ہیں۔

مدد کو آئیے

ساتھ دیجئیے کہ 

کوہ سلیمان اور دامان بدترین انسانی المیے سے دوچار ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

خطبہ جمعہ کعبہ شریف

نیرہ نور انتقال کر گئیں